اللہ جوکرتاہےبہتر کرتاہے
|
جن باطنی اعمال کو حاصل کرنا انسان کی ذمہ داری ہے ان میں سے ایک توکل ہے جو درحقیقت اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان مقام توحید حاصل کر چکا ہو۔ توکل عربی زبان کا لفظ ہے جو وکالھ سے ماخوذ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں کسی پر بھروسہ کر کے اپنے کام کو کسی اور کے سپرد کر دینا اور اسلامی اصطلاح میں توکل اسے کہتے ہیں کہ انسان اسباب پر تکیہ کرنے کے بجائےاللہ پر مکمل بھروسہ کرکے اپنے تمام امور اس کو سونپ دے۔ توکل کی سب سے بڑی مثال غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے پیش کی جس کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں کیا کہ، جب ان سے لوگوں نے آکر بیان کیا کہ کفار نے تمھارے مقابلے کے لیے (لشکر کثیر) جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا اور کہنے لگے ہم کو اللہ ہی کافی ہے وہ بہت اچھا کار ساز ہے پھر وہ خدا کی نعمتوں اور اس کے فضل کے ساتھ واپس آئے تو ان کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچا اور وہ خدا کی خوشنودی کے تابع رہےاور خدا بڑے فضل کا مالک ہے۔، جب مسلمانوں کو غزوہ بدر میں شکست ہوئی تو وہ اللہ پر توکل کر کے آگے بڑھتے رہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا تھا، یہ اللہ پر توکل کا ہی انعام تھا کہ اللہ رب العزت ان سے راضی بھی ہوئے اور ان کا رعب بھی کافروں کے دلوں میں ڈال دیا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم غزوہ ذات الرقاع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے جب ہم ایک سائے دار درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چھوڑ دیا ایک آدمی مشرکوں میں سے آیا اور اپنی تلوار میان میں سے باہر نکالتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہنے لگا کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں، پھر اس شخص نے کہا کہ تم کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاَ اللہ تعالیٰ، یہ سنتے ہی خوف کی وجہ سے اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔ یہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان یقین و توکل علی اللہ ہی تھی کہ شدید ترین جان کے خطرے کے باوجود آپ نے اپنے خون کے پیاسے دشمن کو نہایت اطمینان اور سکون سے جواب دیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنے والوں کو کوئی تکلیف و پریشانی ہوتی ہے تو بھی وہ مطمئن اور مسرور نظر آتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام کے مطابق اسباب کو بالکل چھوڑ بیٹھنا غلط ہے لیکن توکل کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مرحلے پر ظاہری اسباب پر بھروسہ نہ کیا جائے، اس کے بجائے اختصار اور اعتدال کے ساتھ اسباب کو اختیار کر کے معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے۔
گر تو نہیں میرا تو کوئی شے نہیں میری
جو تو میرا تو سب میرا فلک میرا زمیں میری
اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کھلے دل ودماغ سے سوچنے، سمجھنے اور پھر حق کو قبول کرنے کی توفیق دے، آمین
Post a Comment